.

Effects of Sins and the Importance of Fasting

گناہوں کے نحوست اور  روزے کی اہمیت!

 1.گناہوں کے نحوست:

بعض اوقات گناہوں کی نحوست سے دل اس قد رتاریک ہو جاتا ہے کہ حق بات کو نہیں پہچانتا

 پھر اس پر اللہ کی قضا و قدر کی فیصلہ نافذ ہوتا ہے، اللہ کی صفت انتقام کا ظہور ہوتا ہے اور اسے بری

 بات اچھی اور اچھی بات بری لگتی ہے۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں ؛ گه نماید روضه قعر چاه

 رانگه چوں کا بو سے نماید ماه را ببینی کنوئیں کی گہرائی میں تاریکی ، بد بودار پانی اور چمگاڈروں کی گندگی

 ہے مگر شیطان اس کو دکھاتا ہے کہ وہ بہت عمد باغ ہے تو جس شخص کی ذلت ورسوائی کا خدا فیصلہ

 کر لیتا ہے اور اس کے گناہوں کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لینے کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو

 اس کو کنوئیں کی تاریکی اور گندی جگہ میں بڑا مزا آتا ہے کہ کیا عمدہ باغ لگا ہوا ہے.

کبھی شیطان چاند جیسی شکلوں کو ڈراؤنا بھوت جیسا دکھاتا ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ خدا کی صفت

 انتقام سے ڈر کر رہو کیوں کہ گناہوں کی وجہ سے عقل مسخ ہو جاتی ہے، اللہ تعالی خود کسی کو ایسا

 نہیں کرتے ، یہ گناہوں کا انجام ہوتا ہے، پھر کیا ہوتا ہے کہ چاند جیسی شکل ڈراؤنی اور چڑیل جیسی

 نظر آتی ہے اور کنوئیں کی گندگی اور غلاظت عمدہ اور خوشنما باغ دکھائی دیتی ہے۔ حضرت ابو

 ہریرہ کافر ماتے تھے کہ مجھے حضورؐ لے کے چہرہ مبارک میں سورج چلتا ہوا نظر آتا ہے ، ایسا نور اور

 ایسی چمک کہ بس کیا کہیں ۔ ابوجہل سے کفر کی سزا ، اس کی بغاوت کی سزا کے طور پر خدا نے

 انتقام لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لہذا اللہ سے استغفار کرنے میں دیر مت کرو، ۔ جلدی سے تو بہ کر

 کے معافی مانگوتا کہ ہمارے گناہوں کے زہر کاری ایکشن نہ ہو، نافرمانی کر کے چین سے مت بیٹھو

 ہو سکتا ہے کہ رو عمل اور ری ایکشن ہو جائے اور حق تعالی سورہ قضا نا فذفرما دیں اس وقت

 تمہاری یہ حالت ہوگی کہ چاند بری شکل کا نظر آئے گا، اللہ والے تمہیں ہرے نظر آئیں گے، اور

 بد معاش لوگ بڑے اچھے علوم ہوں گے۔

نفس و شیطان دونوں دشمن ہیں نفس دشن وزیر داخلہ ہے اور شیطان وزیر خارجہ ہے، خارج والا

 یعنی با ہر کادشمن کم خطر ناک ہوتا ہے اور داخل والا دشمن گھر کا بھیدی ہوتا ہے، بندے کے لیے

 وہ گھڑی بڑی منحوس ہے جب وہ اپنے مالک کونا راض کرتا ہے یہ نہایت غیر شریفانہ بات ہے یہ

 انتہائی کمینگی ہے کہ ہم ایسے ما لک کو ناراض کریں جس نے ہمارے لیے زمین بنائی سورج بنایا ۔

 اگر اللہ سورج کو ختم کر دے، اگر سورج نہ نکلے تو غلہ کیسے پیدا ہو گا ؟ تب میں مال داروں سے

 کہوں گا کہ اب نوٹوں کی گڈیاں چبا کے دکھاؤ اب دیکھو کہ معدے میں کتنا خون بنتا ہے اور اس

 سے تمہاری کتنی کمزوری دور ہوتی ہے؟ اس لیے نوٹ کمانے والو! یہ نہ مجھو کہ یہ میرے دست

 وبازو نے کمایا ہے یہ مجھو کہ یہ اللہ کی دین ہے۔

 اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتے ہیں بڑھاتے ہیں کم کر دیتے ہیں تو یہ سوچو کہ اگر سورج نہ ہوتا تو

 غلہ نہ پکتا با دل نہ بنتے بارش نہ ہوتی یہ سب سمندر، پہاڑ، سورج، چاند ہستارے ہماری آپ کی

 پرورش میں لگے ہوئے ہیں۔ سرور عالم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں۔ ساری دنیا زمین و آسمان ،

 چاند ستارے، سورج، سمندر، پہاڑ، دریا، بکریاں، جانور ، گائیں ہیل بھینسیں ، اونٹ یہ سب

 تمہاری پرورش کے لیے اللہ نے پیدا کیے ہیں ۔ اگر سورج نہ ہو تو با دل نہیں برس سکتے ، بارش

 نہیں ہو سکتی، کائنات کا ذرہ ذرہ ہماری آپ کی پرورش میں مصروف ہے، یہ ہمارے آپ کے

 خادم ہیں اور ہم اور آپ آخرت کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ دنیا کی یہ ساری چیزیں یہ سب ہمارے

 خدام ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ کے خادم ہیں ہم ان کے لیے بنائے گئے ہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی ؒصاحب فرماتے ہیں کہ ذاکر گناہ گار میں اور غافل گناہ گار میں فرق یہ ہے

 کہ غافل کوتوبہ نصیب نہیں ہوتی اور جو خدا کو یا دکرتا ہے اس سے جب خطا ہوتی ہے تو چوں کہ

 دل میں نور تھا اس لیے نور بجھنے سے پریشانی ہوئی، جیسے لائٹ جانے سے پریشانی ہوتی ہے اب وہ

 پاور ہاؤس ٹیلی فون کرتا ہے کہ میں بہت پریشان ہوں ، بہت گرمی ہے فریج بھی خراب ہے پیچھے

 بھی بند ہیں، ارے جلدی روشنی بھیجو میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا آپ کو بہت دعائیں دوں

 گا تو ایسے ہی جو ہند ہ اپنے دل میں نور رکھتا ہے اس کے گناہوں سے جب دل میں اندھیرا آتا ہے تو

 وہ پریشان ہونا تا ہے وہ فوراً وائرلیس کرتا ہے یعنی آدونا لوں سے استغفار وقو بہ سے اللہ سے رجوع

 کرتا ہے کہ میرے ربا !

دل میں اندھیرا آگیا جلدی سے نور بھیج دیجیے، آپ کا شرمسار بند ہ تو بہ کر رہا ہے استغفار کر رہا

 ہے اور جو دل میں با لکل نور نہیں رکھتا اللہ کویا ہی نہیں کرتا ، اندھیر وں پر اندھیرا چڑھا رہا ہے تو

 اس کی مثال ایسی ہے جیسے موٹر گیراج میں کام کرنے والے لڑکے کی پتلون پر روشنائی گرا دقتو پتا

 ہی نہیں چلے گا کیوں کہ اس پر پہلے ہی تیل اور گریس کے بے شمار نشانات ہوتے ہیں ۔ ایک

 مردے کو سو جوتے لگا دو اور پھر اس کو زبان دے دو تو وہ یہی کہے گا کہ ہمیں تو پتا بھی نہیں چلا تو

 گناہوں پر احساس ندامت نہ ہونا کوئی اچھی چیز نہیں ہے کہ آپ کہیں کہ ہمیں تو پتا بھی نہیں

 چلتا، ہمیں تو گنا ہوں سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ، یہ دل کے مردے ہونے کی علامت ہے۔

 شیطان کے جوتے کھوپڑی پر لگ رہے ہیں اور کسی کو احساس بھی نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس کا دل مردہ

 ہو رہا ہے یہ بہت خطر ناک حالت ہے ۔

اس لیے دوستو!اگر اللہ تعالی و زیادہ چاہتے ہو تو گناہ کا چھوڑنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ کم از کم

 روزانہ ایک تسبیح لا اله الا اللہ کی پڑھیں ۔

 جب لا اللہ کیسے تو یہ مراقبہ کیجیے کہ غیر اللہ دل سے نکل رہا ہے اور ہماری لا الله عرش تک پہنچ

 رہی ہے اور جب الا اللہ کیسے تو یہ مراقبہ کیجیے کہ دل میں اللہ کا نور آرہا ہے۔

2.روزے کی اہمیت:

روزہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اردو میں مستعمل ہے۔ عربی میں اس کے لئے لفظ صوم بولا جاتا

 ہے جس کا معنی بات کرنے اور چلنے پھرنے وغیرہ سے باز رہنا ہے۔ امام راغب فرماتے ہیں صوم

 کا اصل معنی کام سے رکنا ہے۔ ملاعلی قاری لفظ صوم کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے

 ہیں: روزے کا معنی کسی چیز سے رک جاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے (حضرت مریم نے کہا

 میں نے رحمن کیلئے چپ رہنے کی نذرمانی ہے۔ یعنی کلام سے رک جانے کی نذر مانی ہے۔ شرعی

 اعتبار سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ کی نیت سے کھانے پینے اور عمل زوجیت سے

 رکے رہنے کا نام روزہ ہے۔ علامہ ابن حجر فر ماتے ہیں : اصطلاح شرع میں مخصوص وقت میں

 یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک مخصوص شرائط کیساتھ کھانے پینے اور جماع سے اللہ کی

 رضا مندی ( کی نیت سے ) رکے رہنے کا نام روزہ ہے۔ ماہ رمضان کے روزے ہجرت کے اٹھارہ

 ماہ بعد شعبان کے مہینے میں تحویل قبلہ کے دس روز بعد فرض کیے گئے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں

 کہ اس سے قبل کوئی روزہ فرض نہ تھا۔ جبکہ بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے قبل بھی کچھ

 ایام کے روزے فرض تھے جو اس ماہ رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد منسوخ ہو گئے ۔

 چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک تو عاشورہ ( محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ فرض تھا اور بعض

 حضرات کا قول ہے کہ ایام بیض ( قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں ) کی دنوں کے

 روزے فرض تھے۔ ممکن ہے کسی صاحب کو یہ خیال پیدا ہو کر روزہ مکہ میں کیوں فرض نہیں

 ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں پہنچ کر مسلمانوں پرفتوحات کے دروازے کھلنے

 شروع ہوئے ساتھ میں مدینہ منورہ میں جہاد فرض ہوا اس کے نتیجے میں مال غنیمت کی آمد

 شروع ہوئی اور مسلمانوں کی غربت و مفلسی کا دور ختم ہوا فتوحات کی کثرت سے نعمتوں کے

 ڈھیر لگ گئے ایسی حالت میں عام طور پر لوگ خدا کو بھول کر دنیا کی رنگ رنگیلیوں میں پڑ جاتے

 ہیں ۔اس کو بہادر شاہ ظفر شاہ کہتے ہیں۔ ظفر آدمی اس کو نہ جانیو چاہے ہو وہ کیسا ہی صاحب فہم

 وز کا جسے عیش میں یا دخدا نہ رہی، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا،

ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا بھی امتحان لیا تا کہ دنیا کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان خدا کو

 بھولا نہیں بلکہ اب خدا کے راستہ میں مال و جان سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے اگر کسی شخص

 کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو ایسی حالت میں وہ یہ دعوی کرے کہ میں تو دن رات کھا تا

 پیتا ہی نہیں دیکھو مجھ میں کتنا کمال ہے ؟ تو اس کی یہ بات سن کر ہر جانے والا اس کا مذاق اڑائے گا

 اور اس کو بیوقوف سمجھے گا۔ اگر مکہ معظمہ میں روزہ فرض کر دیا جاتا تو اس وقت مسلمانوں کی مالی

 حالت خستہ تھی ایسی حالت میں روز درکھ لیا کوئی کمال نہ ہوتامدینہ منورہ میں زندگی کی تمام

 سہولتیں میسر ہونے کے بعد روزہ فرض کیا گیا تا کہ دنیا کومعلوم ہو جائے کہ مسلمان خدا اور اس

 کے حبیب پاک صلى الله عليه وسلم کا حکم سن کراپنی عیش وعشرت پر لات ماردیتا ہے۔  دوسرے

 لفظوں میں یوں کہیئے کہ مکہ میں اگر روزہ فرض کر دیا جا تا تو یہ مجبور نہ نقوی ہوتا اور مد ینہ   منورہ کا

 تقوی مجنونانہ ہے۔

ہمارے پیارے آقاؐنے ارشاد فرمایا: اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان المبارک

 کی حقیقیت کیا ہے؟ تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے۔ قبیلہ خزاعہ

 کے ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے نبیؐ رمضان کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیے آپؐ 

 نے ارشاد فر مایا رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الہی کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس

 سے جنت کے درختوں کے پتے ہلنے لگتے ہیں اور حور مین عرض کرتی ہیں اے ہمارے رب اس

 مبارک مہینے میں ہمارے لیئے اپنے بندوں میں سے کچھ شو ہر مقرر کر دیجیئے جن سے ہم اپنی

 آنکھیں ٹھنڈی کریں اور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں ۔ اس کے بعد آپ ؐ  نے فرمایا

 کوئی بند وایسا نہیں ہے کہ رمضان شریف کا روزہ رکھے مگر یہ بات ہے کہ اس کی شادی ایسی حور

 سے کر دی جاتی ہے جو ایک ہی موتی سے بنے ہوئے خیمے میں ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کلام

 پاک میں فرمایا ہے: حُوْرٌ مَّقْصُورَاتُ فِي الْخِيَیام یعنی حوریں خیموں میں رکی رہنے والی ۔

آپ نے فرمایا : رمضان المبارک کی ہر شب و روز میں اللہ کے یہاں سے جہنم کے قیدی

 چھوڑے جاتے ہیں اور ہر مسلمان کے لئے ہر شب و روز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ دعا

 کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقدس مہینہ کی قدردانی کی تو فیق عطا فرمائے او راپنی مرضیات کے

 مطابق زندگی بنانے اور گزارنے کی توفیق عطاء   

فرمائے آمین۔