Characteristics of Ramadan Al Kareem .خصوصیات رمضان

﷽ 




Characteristics of Ramadan.

3-29-2032

خصوصیات رمضان

عبد الوھاب بلیدئی


رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خصوصیات عطاء فرمائی ہیں جو دوسرے کسی مہینہ کو اتنی

خصوصیات عطا نہیں کی ۔سید نا ابوھریرہ سے رویت ہے ۔

رحمت دو عالم ؐنے فرمایا ! جس نے ایمان کی حالت میں حصول ثواب کی نیت

سے رمضان کا روزہ رکھا اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ یہ خصوصیت ماہ رمضان کو ہی

حاصل ہے کہ جو منون ثواب کے حصول اور رضائے الہی کے لئے اس ماہ مبارک کے روزے

رکھے اس کے سابقہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرماتےہیں۔


جنت و رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں!


حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا

ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ یہ بھی رمضان المبارک کی بے مثال و لا

زوال خصوصیت ہے، اس بابرکت مہینہ کا آغاز ہوتے ہی جنت و رحمت کے دروازے کھول

دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور انسان کو گنا ہ پر آمادہ کرنے والے

شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اللہ کے صالح اورا طاعت بندے رمضان میں چونکہ

طاعات وحسنات میں مشغول ہو جاتے ہیں وہ دنوں روزہ رکھ کے ذکر و تلاوت میں گزارتے ہیں

اور راتوں کا بڑا حصہ تراویح و تہجد اور دعا استغفار میں بسر کرتے ہیں اور ان کے انوار و برکات سے

متاثر ہو کر عوام مئومنین کے قلوب بھی رمضان المبارک میں عبادات اور نیکیوں کی طرف

زیادہ راغب اور بہت سے گنا ہوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں تو اسلام اور ایمان کے حلقے میں

سعادت اور تقویٰ کے اس عمومی رجحان اور نیکی اور عبادت کی اس عام فضاء کے پیدا ہو جانے

کیوجہ سے ہو تمام طبائع جن میں کچھ بھی صلاحیت ہوتی ہے۔ اللہ کی مرضیات کی جانب مائل اور

شر و خباثت سے متنفر ہو جاتی ہیں اور پھر اس ماہ مبارک میں تھوڑے سے عمل خیر کی قیمت بھی

اللہ تعالی کی جانب سے دوسرے دنو ں کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھادی جاتی ہے تو ان سب باتوں

کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کیلئے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے

بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین ان کو گمراہ کرنے سے عاجز اور بے بس ہو جاتے ہیں اس

تشریح کے مطابق ان تینوں باتوں یعنی جنت و رحمت کے دروازے کھل جانے ، دوزخ کے

دروازے بند ہو جانے اور شیاطین کے مقید اور بے بس کر دئیے جانے کا تعلق صرف ان اہل

ایمان سے ہے جو رمضان المبارک میں خیر وسعادت حاصل کرنے کی طرف مائل ہوتے اور

رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہونے ہونے کے لئے عبادات و طاعات کو اپنا شغل

بناتے ہیں ۔


2.کفار اور خدا نا شناس اور خدا فراموش !

باقی رہے وہ کفار اور خدا نا شناس اور خدا فراموش اور غفلت شعار لوگ جو رمضان او راس کے

احکام و برکات سے کوئی سروکا رہی نہیں رکھتے اور نہ اس کے آنے پر ان کی زندگیوں میں کوئی

تبدیلی ہوتی ہے ظاہر ہے کہ اس قسم کی بشارتوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے جب اپنے

آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے اور بارہ مہینے شیطان کی پیروی پر مطمئن ہیں تو پھر اللہ کے یہاں


3. رمضان المبارک کے لئے جنت !

رمضان المبارک کے لئے جنت کو خصوصی طور پر سجایا جاتا اور اسے خصوصی زینت عطافرمائی

جاتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رحمت کا ئنات

صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بے شک رمضان کے لئے جنت کوز مینت بخشی جاتی ہے ابتداء سال

سے آئیند وسال تک فرمایا پھر جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے موٹی آنکھو والی

حوروں پر جنت کے پتوں سے ہوا چلتی ہے اور وہ موٹی آنکھوں والی حور میں کہتی ہیں اے رب

اپنے بندوں سے ہمارے لیئے جوڑے بناء جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں

ہم سے ٹھنڈی ہوں ۔ یہ رمضان کی خصوصیات سے ہے کہ جنت ماہ شوال سے لیکر رمضان

المبارک تک مزین کی جاتی اور سنواری جاتی ہے اور جو لوگ رمضان المبارک کے روزے

رکھتے ہیں انہیں وہ جنت عطاء کر دی جاتی ہے اور جنت کی حوروں سے ان کا نکاح کر دیا جاتا ہے ۔

جس کی وہ دعائیں کرتی رہتی ہیں او ررمضان کی پہلی رات عرش الہی کے نیچے سے جو ہوا چلتی ہے

وہ جنت کے پتوں کو سرسراتی اور حور عین کے چہروں کو چھوتی جہاں جہاں سے گذرتی ہے حسن

و خوبصورتی کو دوبالا کرتی جاتی ہے۔


4.رمضان المبارک کی ایک خصوصیت!

رمضان المبارک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ کی ہر رات گنہگاروں کو بخشش کیلئے اور

پرہیز گاروں کو عبادت وریاضت میں رغبت کیلئے اللہ تعالی کی طرف سے صد اء او ریندا دی جاتی

ہے جیسا کہ سید نا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب رمضان کی

پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو قید کر دیا جاتا ہے اور آگ جہنم کے دروازے

کھولے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا

ہے کہ اے بھلائی کے چاہنے والے جلدی آجا اور اے برائی کے طالب رک جا۔ اور اللہ تعالیٰ

کیلئے کچھ لوگ آگ سے آزاد کیئے جاتے ہیں اور یہ ہر رات ہوتا رہتا ہے۔

5.روزہ دوسرے مذا ہب میں!

چونکہ روزہ سے روحانیت میں ترقی ہوتی ہے اسی وجہ سے ہرنہ ہب میں کسی نہ کسی صورت میں

روزہ کا سلسلہ رہا ہے۔

ا۔ حضرت آدم ہر مہینہ کی ۱۴۱۳، ۱۵، ان تاریخوں کا روزہ رکھتے تھے۔

۲- آدم ثانی حضرت نوح ہمیشہ بارہ مہینے روزے رکھتے تھے۔

۳۔ضرت داؤ د ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کیا کرتے تھے ۔

۴۔ حضرت عیسی ایک دن روزہ اور دودن افطار کیا کرتے تھے ۔

۵ - نصاری پر بھی رمضان فرض تھے لیکن جب انہیں سردی یا گرمی کے روزوں میں تکلیف

ہوتی تو وہ لوگ ربیع یعنی موسم بہار میں تمہیں ( ۳۰ ) کی بجائے پچاس (۵۰) روزے رکھ لیتے تھے۔


۲۔ برہمن ہند وسال میں چوبیس (۲۴) روزے رکھتے ہیں۔

۷۔ ہندوؤں کے جینی مذہب میں چالیس (۴۰) روزے رکھتے ہیں ۔

۸۔قدیم مصریوں کے ہاں بھی روزہ دیگر مذہبی تہواروں کے شمول میں نظر آتا ہے۔

۹۔ یونان میں صرف عورتیں تصسمو فیریا کی تیسری تاریخ کو روزے رکھتی تھیں ۔

۱۰۔ پرانے پاری یعنی ایران کے زرتشتی مذہب کے پیروکاروں کا مسلک یہ ہے کہ روزے

صرف مذہبی علماء رکھیں عام لوگوں پر فرض نہیں ہیں۔

جینی مذہب کے پیروکاروہ لوگ ہیں جو بڑا پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہیں کہ کہیں کوئی کیڑ ا

مکوڑا ان کے پاؤں کے نیچے آکر مر نہ جائے ناک پر روٹی باندھ کر پھر تے ہیں کہ کوئی جاندار جرم

ناک کے راستے اندر نہ چلا جائے یہ لوگ دیگر جانداروں کے متعلق اتنے پر ہیز گار بنتے ہیں مگر

مسلمان آدمی کوقتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ پرانے یونانی حکماء جن میں افلاطون اور

بقراط جیسے سائنس دان بھی شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ روز صرف عورتیں رکھیں مرد اس سے

مستثنیٰ ہیں ۔

عیسائیوں میں روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے احکام کے لحاظ سے دوسرے مذہب سے پیچھے

ہے اس کے احکام و قوانین زمانہ کے ساتھ سیاسی و اجتماعی عوامل کے اثر سے اکثر بدلتے رہے ہیں

اس لیئے اس پر شریعت الہیہ کے لفظ کا اطلاق بہت مشکل ہے۔ حضرت عیسی نے اپنی نبوت کے

آغاز سے قبل چالیس (۴۰) دن روزہ رکھا تھا وہ کفارہ کا روزہ تھا چنا نچہ عیسائیت میں کوئی شخص یہ

دعویٰ نہیں کر سکتا کہ روزے احکام و قوانین خود اس کے نکالے ہوئے ہیں مسیحی مصادر میں

پولس کے روزہ کا ذکر ملاتا ہے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے زمانہ کے وہ عیسائی جو یہودی النسل

تھے، کفارہ کا روزہ ہم اہم رکھتے تھے۔ راہب (LUKE) نے اس کا خاص اہمیت سے ذکر کیا

ہے اور بہت سے راہب اور کلیسا کے ذمہ دار جنسی ترغیبات کے مقابلہ کے لئے بھی روزہ کی

تلقین کرتے تھے اس زمانہ میں اس کا بہت خیال رکھا جاتا تھا کہ روزہ کوئی ایسی خارجی چیز بن کر نہ

رہ جائے جو روزہ دار پر کوئی اثر نہ ڈال سکے ۔

جہاں تک یہو دیوں کا تعلق ہے عہد بابل میں روزہ ان کے نزدیک ماتم اور سوگ کا رمز بن گیا

تھا۔ اگر کوئی خطرہ در پیش ہوتا یا کوئی کا ہن کسی الہام اور نبوت کے لئے تیاری شروع کرتا تو اس

وقت روزہ ضرور رکھا جاتا ۔ یہودی اس وقت بھی عارضی طور روز و ر کھتے جب سمجھتے کہ خدا اس

سے ناراض ہے میا ملک میں کوئی وبا آتی ، مصیبت نازل ہوتی ، قحط سالی کا سامنا ہوتا، یا پھر بادشاہ

کسی بڑی مہم پر روانہ ہوتا تب بھی روزہ رکھا جاتا تھا۔ ان روزوں کے علا وہ کچھ روزے اور بھی

ہیں جو ان مختلف المباک حوادث کی یاد میں رکھے جاتے ہیں جو یہودیوں کے ساتھ پیش آئے یہ

روزے بھی دوسرے روزوں کیسا تھ شامل کر لیے گئے ہیں یہ لازمی اور جبری نہیں ہیں اور ان

کو عوام میں زیادہ مقبولیت بھی حاصل نہیں ہو سکی تھوڑے اختلاف کیسا تھ ان کی تعداد چھپیں

(۲۵) ہے اور ایسے ہی سال کے پہلے دن کا روزہ یہودیوں کے بہت سے طبقوں میں رائج ہے۔

پہلی امتوں میں سے نصاری پر روز پفرض ہونے کا بیان ایک حدیث میں اس طرح ہے کہ

نصاری پر ماہ رمضان کا روزہ فرض ہوا تھا ان کا کوئی با دشاہ بیمار ہوا تو اس کی قوم نے نذرمانی کہ اگر

ہمارے بادشاہ کو آرام ہو گیا تو ہم رمضان کے روزوں میں دس روزے اور بڑھا دیں گے، پھر

کوئی اور بادشاہ بیمار ہوا تو پھر ند رمانی کہ ہم سات روزے رمضان کے روزوں میں اور بڑھادیں

گے، پھر تیسرا با دشاہ بیمار ہو تو اس نے سوچا کہ پچاس میں صرف تین ہی روزے کم ہیں اس لئے

تین روزے اور بڑ ھالیئے اور خدائی فیصلہ کو چھوڑ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم یہ روزے ربیع یعنی

موسم بہار میں رکھ لیا کریں گے۔